جبین پر کیوں شکن ہے اے جان منہ ہے غصہ سے لال کیسا

جبین پر کیوں شکن ہے اے جان منہ ہے غصہ سے لال کیسا (1900)
by حبیب موسوی
324755جبین پر کیوں شکن ہے اے جان منہ ہے غصہ سے لال کیسا1900حبیب موسوی

جبین پر کیوں شکن ہے اے جان منہ ہے غصہ سے لال کیسا
ہزار باتیں ہوں ایک ہیں پھر بھلا یہ باہم ملال کیسا

نہیں ہے اب تاب درد فرقت کہاں کی عزت کہاں کی غیرت
ہیں مبتلا اپنے حال میں ہم کسی کا اس دم خیال کیسا

بتاؤ مجھ کو یہ کیا ہوا ہے یہ کون سا درد لا دوا ہے
یہ کیوں مرا دم الجھ رہا ہے ہے خود بخود جی نڈھال کیسا

تمام عالم ہوا جو شیدا تو کچھ تعجب نہیں ہے اس کا
بت ستم گار تجھ کو بخشا خدا نے حسن و جمال کیسا

گنہ سے سیری ہوئی نہیں ہے یہ کہتے ہیں سب اجل قریں ہے
قلق میں ہر دم دل حزیں ہے کہ ہوگا اپنا مآل کیسا

یہ اس ستم گر سے کوئی کہہ دے مریض فرقت کی اب خبر لے
ہیں کٹ رہی زندگی کی گھڑیاں کہاں کا دن ماہ و سال کیسا

غضب سے ہے واں جو چیں جبیں پر ہجوم غم ہے دل حزیں پر
لہو کے دھبے ہیں آستیں پر ہے دامن اشکوں سے لال کیسا

ہوس ہے ہر ایک جی کی جی میں ہوئے جو غش وصل کی خوشی میں
تمام شب گزری بے خودی میں جواب کیسا سوال کیسا

جہان چھانا پڑا ہے کب کا فلک پہ وحشت کا اب ہے شہرا
کہاں کا مغرب کہاں کا مشرق جنوب کیسا شمال کیسا

وہ مہر ہوں میں ہوا جو طالع تو اک زمانہ نے خاک اڑائی
چمکنے دیتے نہیں ہیں بد میں عروج کیسا زوال کیسا

حبیبؔ کر کے بتوں کی الفت ابھی سے یہ ہجر کی شکایت
رہے گا اب حشر تک یہ جھگڑا یہاں بھلا انفصال کیسا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.