جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
بلائیں لے رہا ہوں اپنے سر کی
ابھر آئی ہیں پھر چوٹیں جگر کی
سلامت برچھیاں ترچھی نظر کی
قیامت کی حقیقت جانتا ہوں
یہ اک ٹھوکر ہے میرے فتنہ گر کی
کیا مجبور آئین وفا نے
نہ کرنی تھی وفا تم سے مگر کی
نہ مانو گے نہ مانو گے ہماری
ادھر ہو جائے گی دنیا ادھر کی
ہوئی ان بن کسی سے مجھ پہ برسے
بلائیں میرے سر دشمن کے سر کی
نہ تیرے حسن بے پروا کی غایت
نہ کوئی حد مرے ذوق نظر کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |