جب آپ سے ہی گزر گئے ہم
جب آپ سے ہی گزر گئے ہم
پھر کس سے کہیں کدھر گئے ہم
کیا کعبہ و دیر و کیا خرابات
تو ہی تھا غرض جدھر گئے ہم
آئے تھے مثال شعلہ سرگرم
جاتے ہوئے جوں شرر گئے ہم
شبنم کی طرح سے اس چمن سے
ہوتے ہی دم سحر گئے ہم
کچھ اپنے تئیں کیا نہ معلوم
کیا آپ سے بے خبر گئے ہم
جز حسرت عمر رفتہ افسوس
کچھ آ کے یہاں نہ کر گئے ہم
شیخی سے گزر ہوئے قلندر
بگڑے تھے پر اب سنور گئے ہم
اس درجہ ہوئے خراب الفت
جی سے اپنے اتر گئے ہم
فیض اس لب عیسوی کا حاتمؔ
بالعکس ہوا کہ مر گئے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |