جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا
عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے
یعنی ہیں جہاں ہم واں اسلام نہیں ہوتا
کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا
ملتا ہے کبھی بوسہ نے گالی ہی پاتے ہیں
مدت ہوئی کچھ ہم کو انعام نہیں ہوتا
ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا
کیوں تیرگیٔ طالع کچھ تو بھی نہیں کرتی
یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا
پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
وہ آہوئے رم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا
نے عشق کے قابل ہیں نے زہد کے درخور ہیں
اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |