جب خزاں آئی چمن میں سب دغا دینے لگے
جب خزاں آئی چمن میں سب دغا دینے لگے
تنکے اڑا اڑ کر نشیمن کا پتہ دینے لگے
جب مری گستاخیوں کی وہ سزا دینے لگے
وصل کی شب لات گھونسہ بھی مزا دینے لگے
مانجھ کر وہ دانتوں کو جب مسکرا دینے لگے
چھوٹی موٹی سینکڑوں بجلی گرا دینے لگے
قتل کرنے کے بجائے یہ سزا دینے لگے
کھود کر گڈھا مجھے زندہ دبا دینے لگے
بے تحاشہ قبر پر کسلے بجا دینے لگے
میری مٹی کو ٹھکانے سے لگا دینے لگے
ان کے اک تھپڑ سے جب میں دم چرا کر پڑ گیا
ایسے گھبرائے کہ دامن سے ہوا دینے لگے
آپ تو مانگا کریں تھے میرے مرنے کی دعا
اب لگا مرنے تو جینے کی دعا دینے لگے
کیسا عاشق آپ تو مجھ کو سمجھتے ہیں قلی
ہر جگہ ہاتھوں میں میرے بسترہ دینے لگے
ہو گیا مجبور میں بھی اور دل ناکام بھی
وصل کی شب جب خدا کا واسطہ دینے لگے
کم نہیں ہے تارپیڈو سے ترے تیر نظر
چھید کر دل آگ سینے میں لگا دینے لگے
محروموں سے آپ کے جوبن کا عقدہ کھل گیا
آپ کی اٹھتی جوانی کا پتہ دینے لگے
بومؔ ہونا چاہئے بزم سخن میں وہ کلام
دوست کیا دشمن صدائے مرحبا دینے لگے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |