جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز

جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز
by امداد علی بحر

جب دست بستہ کی نہیں عقدہ کشا نماز
کاٹے گی میری پاؤں کی زنجیر کیا نماز

بندوں کا تو یہ حال ہے لیتی نہیں سلام
کیوں کر کہوں قبول کرے گا خدا نماز

بوئے ریا ہر ایک گل بوریا میں ہے
دنیا کی گھر کا فرش ہے زاہد کی جانماز

روزہ ہماری فاقہ کشی کا نمونہ ہے
اپنی فروتنی کا ہی اک پرتوا نماز

فریاد کر رہا ہوں دو وقتی اذاں نہیں
تکلیف مجھ کو دیتی ہیں صبح و مسا نماز

مینائے مے امام ہو ماموم رند ہوں
حسرت ہے پانچ وقت کی ہو یوں ادا نماز

سارے نقوش سنگئ گلہائے باغ خلد
جس بوریے پہ میں نے پڑھی بے ریا نماز

مستی میں لغزش اپنی رکوع و سجود ہے
نکلے جو میکدے سے تو ہوگی قضا نماز

جاتے ہیں گرتے پڑتے ہوئے راہ شوق میں
کیا جانیں ہم طریق ہے کیا اور کیا نماز

لا تقربو الصلوٰۃ اسی امر پر ہے نہیں
پی کر مے‌ٔ غرور نہ پڑھ واعظا نماز

اللہ دے جو نیت خالص حضور قلب
پھر عرش سجدہ گاہ ہے کرسی ہے جانماز

ہر دم جہاد نفس میں تکبیر ہے بلند
سر پر ہے تیغ جبر مگر ہے بپا نماز

دامان تر کی لو خبر اے زاہدان خشک
اس جامۂ نجس سے نہیں ہے روا نماز

ہے اضطراب فاقے میں اٹھ بیٹھ بہر قوت
زاہد کجا و روزہ کجا و کجا نماز

تیر و کماں ہیں اس کے قیام و رکوع بحرؔ
اک دن اڑائے گی ہدف مدعا نماز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse