جب سجیلے خرام کرتے ہیں
جب سجیلے خرام کرتے ہیں
ہر طرف قتل عام کرتے ہیں
مکھ دکھا چھب بنا لباس سنوار
عاشقوں کو غلام کرتے ہیں
یہ چکورے مل اس سریجن سوں
رات دن اپنا کام کرتے ہیں
یار کو عاشقان صاحب فن
ایک دیکھے میں رام کرتے ہیں
گردش چشم سوں سریجن سب
بزم میں کار جام کرتے ہیں
یہ نہیں نیک طور خوباں کے
آشنائی کو عام کرتے ہیں
جی کو کرتے ہیں عاشقاں تسلیم
جب وہ ہنس کر سلام کرتے ہیں
مرغ دل کے شکار کرنے کوں
زلف و کاکل کو دام کرتے ہیں
شوخ میرا بتاں میں جب جاوے
اس کو اپنا امام کرتے ہیں
خوب رو آشنا ہیں فائزؔ کے
مل سبی رام رام کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |