جب سے اس بے وفا نے بال رکھے
جب سے اس بے وفا نے بال رکھے
صید بندوں نے جال ڈال رکھے
ہاتھ کیا آوے وہ کمر ہے ہیچ
یوں کوئی جی میں کچھ خیال رکھے
رہرو راہ خوفناک عشق
چاہیے پاؤں کو سنبھال رکھے
پہنچے ہر اک نہ درد کو میرے
وہ ہی جانے جو ایسا حال رکھے
ایسے زر دوست ہو تو خیر ہے اب
ملیے اس سے جو کوئی مال رکھے
بحث ہے ناقصوں سے کاش فلک
مجھ کو اس زمرے سے نکال رکھے
سمجھے انداز شعر کو میرے
میرؔ کا سا اگر کمال رکھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |