جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں
جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں
تب سے جہاں میں تم نے دھومیں مچائیاں ہیں
جور و جفا و محنت مہر و وفا و الفت
تم کیوں بڑھائیاں ہیں اور کیوں گھٹائیاں ہیں
مل مل کے روٹھ جانا اور روٹھ روٹھ ملنا
یہ کیا خرابیاں ہیں کیا جگ ہنسائیاں ہیں
ٹک ٹک سرک سرک کر آ بیٹھنا بغل میں
کیا اچپلائیاں ہیں اور کیا ڈھٹائیاں ہیں
زلفوں کا بل بناتے آنکھیں چرا کے چلنا
کیا کم نگاہیاں ہیں کیا کج ادائیاں ہیں
آئینہ روبرو رکھ اور اپنی سج بنانا
کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں
آنچل اٹھا کے تم نے جو ڈھانک لیں یہ چھتیاں
کس کو دکھائیاں ہیں کس سے چھپائیاں ہیں
تم میں جو شوخیاں ہیں اور چنچلائیاں ہیں
کن نے سکھائیاں ہیں کن نے بتائیاں ہیں
حاتمؔ کے بن اشارہ سچ کہہ یہ چشم و ابرو
کس سے لڑائیاں ہیں کس پر چڑھائیاں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |