جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ

جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
اپنی نظروں میں ہے سب کون و مکاں کا بہروپ

میں گیا بھیس بدل کر تو لگا یوں کہنے
چل بے لایا ہے مرے آگے کہاں کا بہروپ

چاند تارے ہیں یہ کیسے یہ شب و روز ہے کیا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے یہاں کا بہروپ

چشم بینا ہوں تو داڑھی کی دو رنگی سمجھیں
ایک چہرے پہ ہے یہ پیر و جواں کا بہروپ

پہنے جاتے ہیں کئی رنگ کے کپڑے دن میں
کیا کہوں ہائے غضب ہے یہ بتاں کا بہروپ

باغ میں طرۂ سنبل کی پریشانی سے
صاف نکلا ترے شوریدہ سراں کا بہروپ

مصحفیؔ سانگ سے کیا اکھڑے ہے پشم اس کی بھلا
سو طرح سے ہو جسے یاد زباں کا بہروپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse