جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
گوہر شبنم گل نیر اعظم ہو جائے
مرثیہ ہو مجھے گانا جو سنوں فرقت میں
بے ترے بزم غنا مجلس ماتم ہو جائے
دیکھ کر طول شب ہجر دعا کرتا ہوں
وصل کے روز سے بھی عمر مری کم ہو جائے
دیکھ کر پھولوں کو انگاروں پہ لوٹوں اے گل
بے ترے گلشن فردوس جہنم ہو جائے
کم نہیں ملک سلیماں سے وصال ساقی
گردش جام مجھے حلقۂ خاتم ہو جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |