جب کسی نے آن کر دل سے مرے پرخاش کی
جب کسی نے آن کر دل سے مرے پرخاش کی
بات تب عاشق گری کی میں جہاں میں فاش کی
کیا کہوں جس نے کیا اس حسن کو آراستہ
چوم لیجے انگلیاں یارو اسی نقاش کی
اے مصور جو ہوا منقوش تیرے ہاتھ سے
وہ کہاں تصویر بن سکتی کسی سے قاش کی
کل ترے کوچے میں میں جا کر کے سر اپنا پٹک
رو پڑا تجھ کو نہیں پایا بہت تالاش کی
یارو ساقی اور شراب و سبزہ موجود آج ہے
آفریدیؔ ہے کباب دل پہ جا شاباش کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |