جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم
جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم
ہنس کے بولے تمہیں جینا تھا تو مر کیوں نہ گئے
ہم تو اللہ کے گھر جا کے بہت پچھتائے
جان دینی تھی تو کافر ترے گھر کیوں نہ گئے
سوئے دوزخ بت کافر کو جو جاتے دیکھا
ہم نے جنت سے کہا ہائے ادھر کیوں نہ گئے
پہلے اس سوچ میں مرتے تھے کہ جیتے کیوں ہیں
اب ہم اس فکر میں جیتے ہیں کہ مر کیوں نہ گئے
زاہدو کیا سوئے مشرق نہیں اللہ کا گھر
کعبے جانا تھا تو تم لوگ ادھر کیوں نہ گئے
تو نے آنکھیں تو مجھے دیکھ کے نیچی کر لیں
میرے دشمن تری نظروں سے اتر کیوں نہ گئے
سن کے بولے وہ مرا حال جدائی مضطرؔ
جب یہ حالت تھی تو پھر جی سے گزر کیوں نہ گئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |