جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث

جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث
by سید یوسف علی خاں ناظم

جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث
کہتے ہیں پوچھنے کا کیا باعث

بھولی صورت کی ہے خوبی ورنہ
ہو عدو دوست نما کیا باعث

میں نے کی آہ تو بولے ناگاہ
ہو گئے گرم ہوا کیا باعث

آتا ہے دیکھ کے انجم کو خیال
ہے فلک آبلہ پا کیا باعث

وعدہ کرنے کی ضرورت کیا تھی
پھر نہ آنے کا بھلا کیا باعث

گر نہ تھی ہجر میں امید وصال
جیتے رہنے کا ہوا کیا باعث

دم نکلتا ہے مرا رک رک کر
کند ہے تیغ قضا کیا باعث

چشمۂ خضر میں مے ہی بے شک
آب ہو عمر فزا کیا باعث

تم کرو ترک جفا کیا امکان
ہم کریں ترک وفا کیا باعث

نالہ کرتا نہیں ناظمؔ تاثیر
تیر ہوتا ہے خطا کیا باعث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse