جب کہ زلف اس کی گلے کھا بل پڑی
جب کہ زلف اس کی گلے کھا بل پڑی
لشکر عشاق میں ہلچل پڑی
چتونوں نیچے کسے آنکھ آپ کی
تکتی ہے پلکوں کے یوں اوجھل پڑی
آہ کالی رات ہجراں کی پھنسی
کرتی ہے کاکل ہی میں کل کل پڑی
کل جو مدح و ذم تھی سانچ اور جھوٹ کی
وہ پھبی ہم پر یہ تم پر ڈھل پڑی
شعلہ خوئی سوچ تیری آج تک
پکتی ہے چھاتی مری کھل کھل پڑی
آہ بس سینے میں وہ رسوا نہ کر
شمع ساں فانوس میں اب جل پڑی
دوستی اس نے جو مجھ سے گرم کی
دشمنوں کو اظفریؔ کچھ جھل پڑی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |