جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے
جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے
منہ سے مرے کیوں نہ آہ نکلے
دل وہ ہے کہ جس سے چاہ نکلے
منہ وہ ہے کہ جس سے آہ نکلے
زنداں کی تو اپنے سیر تو کر
شاید کوئی بے گناہ نکلے
مانیؔ سے کھنچی نہ خط کی تصویر
لاکھوں ورق سیاہ نکلے
خجلت یہ ہوئی کہ محکمے سے
شرمندہ مرے گواہ نکلے
رستے مسدود ہو گئے ہیں
اب دیکھیے کیونکے راہ نکلے
پلکیں نہیں چھوڑتیں کہ اک دم
آنکھوں سے تری نگاہ نکلے
اے آہ تو لے تو چل علم کو
تا آنسوؤں کی سپاہ نکلے
نکلا میں گلی سے اس کی اس طرح
جیسے کوئی دادخواہ نکلے
وہ سوختہ میں نہیں کہ جس کی
تربت سے گل و گیاہ نکلے
شعر اپنے جو مصحفیؔ پڑھوں میں
منہ سے ترے واہ واہ نکلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |