جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے

جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
by بیخود دہلوی

جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
سکھا رہے ہیں وہ گویا چلن وفا کے مجھے

رکھا نہ ہم کو کہیں کا تری محبت نے
وہ کہہ رہے ہیں عدو سے سنا سنا کے مجھے

تمیز عشق و ہوس پیشتر نہ تھی ان کو
وہ اور ہو گئے مغرور آزما کے مجھے

شب وصال ادائیں بھی ہیں جفائیں بھی
دکھائے جاتے ہیں انداز کس بلا کے مجھے

جو سیر دیکھنی منظور ہے تمہیں بیخودؔ
بھڑا دو حضرت زاہد سے مے پلا کے مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse