جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے
کہ تنکے جمع کریں پھر نہ آشیانے کے
سبب یہ ہوتے ہیں ہر صبح باغ جانے کے
سبق پڑھاتے ہیں کلیوں کو مسکرانے کے
ہزاروں عشق جنوں خیز کے بنے قصے
ورق ہوے جو پریشاں مرے فسانے کے
ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا
اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے
قرار جلوہ نمائی ہوا ہے فردا پر
یہ طول دیکھیے اک مختصر زمانے کے
نہ پھول مرغ چمن اپنی خوشنوائی پر
جواب ہیں مرے نالے ترے ترانے کے
اسی کی خاک ہے ماتھے کی زیب بندہ نواز
جبیں پہ نقش پڑے ہیں جس آستانے کے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |