جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے
by مضطر خیرآبادی

جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے
دہائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

تمہارے عشق میں دنیا ہے دشمن
خدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

حسینوں کی گلی ہے اور میں ہوں
گدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

تری جلاد آنکھوں کی ستم گر
صفائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

اسیری میں مزا تھا فصل گل کا
رہائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

خفا ہیں وہ دعاؤں کے اثر پر
رسائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

کیے دیتا ہے قاتل ذبح مضطرؔ
کلائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse