جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا

جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
by میر تقی میر
315512جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوامیر تقی میر

جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
تپش کی یاں تئیں دل نے کہ درد شانہ ہوا

جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفت زمانہ ہوا

خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید
سرکش یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا

ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے
ہزار حیف سر حرف اس سے وا نہ ہوا

کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کی میرؔ
سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.