جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
تپش کی یاں تئیں دل نے کہ درد شانہ ہوا
جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفت زمانہ ہوا
خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید
سرکش یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا
ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے
ہزار حیف سر حرف اس سے وا نہ ہوا
کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کی میرؔ
سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |