جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو

جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
by وحشت کلکتوی

جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
عزیز کیوں نہ رکھیں زندگی کے حاصل کو

نہاں اگرچہ ہے محفل سے سوز دل میرا
مگر یہ راز ہے معلوم شمع محفل کو

وہ طول کھینچا بلا کا ترے تغافل نے
کہ صبر آ ہی گیا میرے مضطرب دل کو

کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل
بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو

وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام
وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو

خبر ہوئی نہ انہیں میرے مضطرب دل کی
غلط خیال ہے یہ دل سے راہ ہے دل کو

بلا کی ہوتی ہے وحشتؔ کی بھی غزل خوانی
کہ اک سرور سا ہوتا ہے اہل محمل کو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse