جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ

جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
by میر تقی میر

جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ

اب کیسا چاک چاک ہو دل اس کے ہجر میں
گتھواں تو لخت دل سے نکلتی ہے میری آہ

شام شب وصال ہوئی یاں کہ اس طرف
ہونے لگا طلوع ہی خورشید رو سیاہ

گزرا میں اس سلوک سے دیکھا نہ کر مجھے
برچھی سی لاگ جا ہے جگر میں تری نگاہ

دامان و جیب چاک خرابی و خستگی
ان سے ترے فراق میں ہم نے کیا نباہ

بیتابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے
اے صبر میں نے آن کے لی ہے تری پناہ

خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ
آنسو کی بوند جس سے ٹپکتی تھی گاہ گاہ

گل سے شگفتہ داغ دکھاتا ہوں تیرے تیں
گر موافقت کرے ہے تنک مجھ سے سال و ماہ

گر منع مجھ کو کرتے ہیں تیری گلی سے لوگ
کیوں کر نہ جاؤں مجھ کو تو مرنا ہے خوا مخواہ

ناحق الجھ پڑا ہے یہ مجھ سے طریق عشق
جاتا تھا میرؔ میں تو چلا اپنی راہ راہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse