جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
درد جس میں نہیں جگر ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں وہ بھی ہیں بے چین
کچھ یہ بے تابیاں ادھر ہی نہیں
دل کہاں کا جو درد دل ہی نہ ہو
سر کہاں کا جو درد سر ہی نہیں
بے خبر جن کی یاد میں ہیں ہم
خیر سے ان کو کچھ خبر ہی نہیں
بیخودؔ محو و شکوہ ہائے عتاب
اس منش کا تو وہ بشر ہی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |