جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے

جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے
by رشید لکھنوی

جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے
جب اٹھے یہ غم کہ دل کا آئنہ پتھر بنے

اب جو وہ بنوائیں گہنا یاد رکھنا گل فروش
پھول بچ جائیں تو میری قبر کی چادر بنے

بعد آرائش بلائیں کون لے گا میرے بعد
یاد کرنا مجھ کو جب زلف پری پیکر بنے

ہے تمہارے سامنے تو جان کا بچنا محال
تم سے جب چھوٹیں تو دیکھیں غیر سے کیوں کر بنے

دونوں عاشق تیرے اور دونوں کی یکجا بود و باش
میری جاں جان و جگر میں دیکھیے کیوں کر بنے

آرزو مند شہادت کی وصیت سب سے ہے
نام کھودا جائے میرا جب کوئی خنجر بنے

دل مشبک ہو گیا تیر نگاہ خانہ سے
اب تمہاری یاد کے آنے کو لاکھوں گھر بنے

غیر سے کوئی تعلق ہی نہ رکھ اے جنگ جو
گر بگڑ مجھ سے بگڑ جو کچھ بنے مجھ پر بنے

خفتگان خاک چونک اٹھے چلے کچھ ایسی چال
آج تو اے میری جاں تم فتنۂ محشر بنے

چاہتے ہو تم رہوں مر کر بھی میں قدموں سے دور
کہتے ہو قبر اس کی میرے کوچہ سے باہر بنے

مر کے بھی پائیں لب ساقی کا بوسہ کیا مجال
واں نہ پہنچے گر ہماری خاک کا ساغر بنے

دامن قاتل کے دھبوں کی گواہی ہو ضرور
گر ہمارے خون کا اے دوستو محضر بنے

دل مجھے اچھا برا جیسا بنایا دے دیا
سر تو کوئی پوچھتا کیسا بنے کیوں کر بنے

قبر کا کونا ہو مسکن دم نکل جائے رشیدؔ
خانۂ تن گر چکے جلدی کہ اپنا گھر بنے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse