جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
تری گلی سے سدا اے کشندۂ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں
گیا نظر سے جو وہ گرم طفل آتش باز
ہم اپنے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھیں
ترے وصال کے ہم شوق میں ہوں آوارہ
عزیز دوست سبھوں کی جدائیاں دیکھیں
ہمیشہ مائل آئینہ ہی تجھے پایا
جو دیکھیں ہم نے یہی خود نمائیاں دیکھیں
شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی
انہیں کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھیں
بنی نہ اپنی تو اس جنگ جو سے ہرگز میرؔ
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |