جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا
by شوق قدوائی

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا
مری وفا کا اسے اعتبار کیوں آیا

یہ دل کی بات ہی منہ سے ادا نہیں ہوتی
میں کیا کہوں کہ یہاں بار بار کیوں آیا

خیال پرسش محشر سے وہ ہوا مغموم
نظر کے سامنے میرا مزار کیوں آیا

کہاں وہ ہاتھ میں پاؤں حسین لڑکوں کے
سڑی نہیں تو سوئے کوہسار کیوں آیا

تڑپ تھی مر کے بھی میت پہ شاید آیا وہ
نہیں یہ بات تو دل کو قرار کیوں آیا

ہوا میں خاک تو وہ لڑ رہا ہے آندھی سے
کہ تیرے ساتھ مرے گھر غبار کیوں آیا

وہ انتظار کی لذت بھی لے گیا اے شوقؔ
ہوا کے گھوڑے پہ ظالم سوار کیوں آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse