جلا ہے کس قدر دل ذوق کاوش ہائے مژگاں پر
جلا ہے کس قدر دل ذوق کاوش ہائے مژگاں پر
کہ سو سو نشتروں کی نوک ہے اک اک رگ جاں پر
پڑا ہوگا مگر عکس عذار لالہ گوں ورنہ
یہ گستاخی ہمارا خون اور قاتل کے داماں پر
طریق عشق میں ہے رنج پہلے اور خوشی پیچھے
مدار صبح روز وصل ہے اک شام ہجراں پر
مری دیوانگی روز قیامت میرے کام آئی
قلم رحمت کا کھینچا اس نے آخر میرے عصیاں پر
اگر ان کے تغافل کو ہے دعویٰ اپنی تمکیں کا
ہماری خود فراموشی کو ہے ناز اپنے نسیاں پر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |