Author:ساحر دہلوی
ساحر دہلوی (1863 - 1962) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- وجود اب مرا لا فنا ہو گیا
- ترے سوا مری ہستی کوئی جہاں میں نہیں
- تقوے کے لئے جنت و کوثر ہوئے مخصوص
- سر عرش بریں ہے زیر پائے پیر میخانہ
- صمد کو سراپا صنم دیکھتے ہیں
- رسوائے عشق میں ترا شیدا کہیں جسے
- رسوائے عشق ہے ترا شیدا کہیں جسے
- نور ایماں سرمۂ چشم دل و جاں کیجئے
- نشاں علم و ادب کا اب بھی ہے اجڑے دیاروں میں
- مست نگاہ ناز کا ارماں نکالیے
- کیف مستی میں عجب جلوۂ یکتائی تھا
- کام اس دنیا میں آ کر ہم نے کیا اچھا کیا
- جنوں کے جوش میں جس نے محبت کو ہنر جانا
- جو لا مذہب ہو اس کو ملت و مشرب سے کیا مطلب
- جسد نے جان سے پوچھا کہ قلب بے ریا کیا ہے
- جلا ہے کس قدر دل ذوق کاوش ہائے مژگاں پر
- اس جسم کی ہے پانچ عناصر سے بناوٹ
- حوصلہ وجہ تپش ہائے دل و جاں نہ ہوا
- ہیں سات زمیں کے طبق اور سات ہیں افلاک
- گویا زبان حال تھی ساحرؔ خموش تھا
- فضائے عالم قدسی میں ہے نشو و نما میری
- دل کو یکسوئی نے دی ترک تعلق کی صلاح
- دل کی تسکین کو کافی ہے پریشاں ہونا
- دل ہے بحر بیکراں دل کی امنگ
- درمیان جسم و جاں ہے اک عجب صورت کی آڑ
- دیر و حرم ہیں منظر آئین اختلاف
- چشم مست ساقی سے دل ہوا خراب آباد
- چار عنصر سے بنا ہے جسم پاک
- بت پرستی کے صنم خانے کا آثار نہ توڑ
- عیاں ہو رنگ میں اور مثل بو گل میں نہاں بھی ہو
رباعی
edit- یارب مرے دل کو کر عطا صدق و صفا
- مردود خلائق ہوں گنہ گار ہوں میں
- میں نفس پرستی سے سدا خوار رہا
- لازم ملزوم ہو گئے ذات و صفات
- خجلت سے مرا جاتا ہوں کیا زندہ ہوں
- ہر سر میں یہ سودا ہے کہ میں ہی میں ہوں
- اے طینت عبث اب بدی سے باز آ
- عالم کا وجود ہے نمود بے بود
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |