جلن دل کی لکھیں جو ہم دل جلے

جلن دل کی لکھیں جو ہم دل جلے
by رند لکھنوی
316637جلن دل کی لکھیں جو ہم دل جلےرند لکھنوی

جلن دل کی لکھیں جو ہم دل جلے
زبان قلم میں پڑیں آبلے

رہ صعب الفت میں گھبرا نہ دل
بہت ایسے پیش آئیں گے مرحلے

نہ دن وہ تمہارے نہ اپنا وہ سن
تمہارے ہمارے وہ دن سن ڈھلے

عدم کی بھی کیا راہ ہے بے نظیر
چلے جاتے ہیں پیش و پس قافلے

وہ اب نیمچا کر چکے ہیں علم
اجل آ چکی سر پہ کیوں کر ٹلے

ٹھہر جا کوئی دم کے مہمان ہیں
خبر لے ہماری چلے ہم چلے

لکیریں بھی مٹ مٹ گئیں ہاتھ کی
زبس ہم نے دست تأسف ملے

رہے دل کے ارمان سب دل میں حیف
نکلنے نہ پاے مرے حوصلے

بڑا ہو بڑھاپے کا سب کھو دیا
نہ میری جوانی نہ وہ ولولے

گڑا کوئی لے کر دل مضطرب
مزاروں میں آنے لگے زلزلے

سیہ کاریوں میں کٹی عمر سب
قلم کی طرح سر کے بل گو چلے

محبت بتوں کی یہ دل چھوڑ دے
کسی طرح چھاتی سے پتھر ٹلے

شکایت کا موقع نہ تھا وصل میں
کہ تھی راہ تھوڑی بہت تھے گلے

کوئی دم میں ہے نقش ہستی فنا
کدھر دھیان ہے تیرا او باؤلے

کنار لحد میں پڑے ہیں وہ آج
جو آغوش مادر میں تھے کل پلے

گلا تیغ قاتل سے رگڑا کیا
نہ جھچکا ذرا واہ رے منچلے

نہ لایا کوئی شمع و گل گور پر
لحد میں بھی داغ محبت جلے

چلے باغ ہستی سے ہم نامراد
کسی رت میں اے گل نہ پھولے پھلے

ازل سے ہیں عشاق مذبوح حسن
جو مانند ماہی کٹے ہیں گلے

جو فریادی تیرے بھی آ نکلے واں
زمیں ہوگی محشر کی اوپر تلے

جو ابرو کے ہوں گے اشارے یوں ہی
مری جان لاکھوں کٹیں گے گلے

کئے جائے کاوش پلک یار کی
ابھی دل کے پھوٹے نہیں آبلے

سرا میں نہ غافل ہو باندھو کمر
چلو ساتھ والو چلو ہم چلے

رہے میرا جسم مثالی صحیح
بلا سے یہ پتلا سڑے یا گلے

یہ سب سر زمیں فتنہ انگیز ہے
ہزاروں ہی اٹھتے ہیں یاں غلغلے

نظر بھر کے پھر دیکھ لوں شکل یار
جو آئی ہوئی میری دم بھر ٹلے

ہمیشہ رہا داغ داغ اپنا جسم
سدا مثل سرو چراغاں جلے

فلک کو ملانا تھا گر خاک میں
تو پھر ناز و نعمت سے کیوں ہم پلے

رہے بار ور شاخ نخل مراد
الٰہی ہمیشہ تو پھولے پھلے

زمانے پہ افسردگی چھا گئی
نہ ہیں اب وہ چرچے نہ وہ مشغلے

مسافر ہوں دلواؤں گا نذر خضر
جو طے ہوں گے رستے کے سب مرحلے

لہو شب سے آتا ہے اشکوں کے ساتھ
کلیجے کے ناسور شاید چھلے

بسر ہو گئی اس تمنا میں عمر
کوئی دوست یک رنگ مجھ کو ملے

یہ کیا روگ اب ہو گیا رندؔ کو
کئی سال ادھر تک تھے چنگے بھلے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.