جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا
by عزیز لکھنوی

جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا
نور جل جائے ابھی چشم تماشائی کا

رنگ ہر پھول میں ہے حسن خود آرائی کا
چمن دہر ہے محضر تری یکتائی کا

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

اف ترے حسن جہاں سوز کی پر زور کشش
نور سب کھینچ لیا چشم تماشائی کا

دیکھ کر نظم دوعالم ہمیں کہنا ہی پڑا
یہ سلیقہ ہے کسے انجمن آرائی کا

کل جو گلزار میں ہیں گوش بر آواز عزیزؔ
مجھ سے بلبل نے لیا طرز یہ شیوائی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse