جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا

جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا
by سیماب اکبرآبادی

جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا
جس میں تھے جلوے ترے وہ آئنہ کیا ہو گیا

جب تصور نے بڑھا دی نالۂ موزوں کی لے
ساز بے آواز سے اک شعر پیدا ہو گیا

نجد کے ہرنوں سے اعجاز محبت پوچھیے
پڑ گئی جس پر نگاہ قیس لیلیٰ ہو گیا

جان دے دی میں نے تنگ آ کر وفور درد سے
آج منشائے جفائے دوست پورا ہو گیا

اب کہاں مایوسیوں میں ضبط کی گنجائشیں
وہ بھی کیا دن تھے کہ تیرا غم گوارا ہو گیا

دل کھنچا جتنا قفس میں آشیانے کی طرف
دور اتنا ہی قفس سے آشیانا ہو گیا

رفتہ رفتہ ہو گئے جذب اس میں جلوے سینکڑوں
دل مرا سیمابؔ تصویر سراپا ہو گیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse