جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں

جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں
نظر آتا ہے ہمیں سرو چمن آئنے میں

سینہ صافوں سے خبر عالم علوی کی تو پوچھ
عرش و کرسی ہے یہاں عکس فگن آئنے میں

تاب آزردگی کب ہے دل عاشق کو یہاں
چین پیشانی سے پڑتی ہے شکن آئنے میں

چشم بیمار سے ٹپکے تھا لہو دیکھتے وقت
پلکیں ہلیاں تو پڑا زور ہی رن آئنے میں

لے لیا پیار سے عکس اپنے کا جھک کر بوسہ
اس نے دیکھا جو وہ پاں خوردہ دہن آئنے میں

ابرق سوختہ سا کیوں نہ نظر آئے جو ہو
آتش حسن تری صاعقہ زن آئنے میں

دام میں لاویں وہ تا عکس کی تیرے تصویر
زلفیں پھینکیں ہیں دو جانب سے رسن آئنے میں

آب جو کا ہے یہ عالم کہ نظر آتا ہے
لعل رمانی سا ہر گل کا برن آئنے میں

دل مایوس کو پہنے ہوئے آتی ہیں نظر
سیکڑوں حسرت دیدار کفن آئنے میں

آئنہ دیکھتے پیچھے سے جو میں آ نکلا
عکس پر عکس ہوا سایہ فگن آئنے میں

تھی تو آزردگی مدت سے پہ وہ روٹھے ہوئے
بن منائے گئے بے ساختہ من آئنے میں

مصحفیؔ کیوں نہ کہے تجھ کو کوئی طوطیٔ ہند
جب تو اس وضع کرے فکر سخن آئنے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse