جلوۂ دیدار تو اک بات ہے
جلوۂ دیدار تو اک بات ہے
لن ترانی عاشقوں کی گھات ہے
آشنا جس کا ہے تو آرام جاں
وہ جہاں میں مورد آفات ہے
بوسۂ رخ دے زکات حسن ہے
اے حسیں یہ داخل حسنات ہے
آئنہ خانہ بنا ہے میرا دل
دیکھ لے کیا خوش نما مرآت ہے
جان و دل تھا نذر تیری کر چکا
تیرے عاشق کی یہی اوقات ہے
گریۂ عشاق پر ہیں خندہ زن
کہتے ہیں کیا خوش نما برسات ہے
ہجر کی شب ہے ہجوم صد بلا
میں ہوں تنہا اور خدا کی ذات ہے
خاتمہ با لخیر ہو جائے کہیں
شرم اپنی اب خدا کے ہاتھ ہے
زندگی ہے چار دن کی چاندنی
پھر وہی ساقیؔ اندھیری رات ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |