جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے
ایسا شکوہ اس کی صورت میں ہے کہ ناگہ
آوے جو سامنے سے دست مجال باندھے
آنکھوں سے گر کرے وہ زلفوں کو ٹک اشارہ
آویں چلے ہزاروں وحشی غزال باندھے
عیسیٰ و خضر تک بھی پہنچے اجل کا مژدہ
تو تیغ اگر کمر پر بہر قتال باندھے
لالے کی شاخ ہرگز لہکے نہ پھر چمن میں
گر سر پہ سرخ چیرا وہ نونہال باندھے
لت عاشقی کی کوئی جائے ہے عاشقوں سے
گو بادشاہ ڈانڈے گو کوتوال باندھے
ہم کس طرح سے دیکھیں جب دے دے پیچ لڑ کے
چیرے کے پیچوں میں تو زلفوں کے بال باندھے
بندہ ہوں میں تو اس کی آنکھوں کی ساحری کا
تار نظر سے جس نے صاحب کمال باندھے
ہم ایک بوسے کے بھی ممنوں نہیں کسی کے
چاہے سو کوئی تہمت روز وصال باندھے
سوز دل اپنا اس کو کیا مصحفیؔ سناویں
آگو ہی وہ پھرے ہے کانوں سے شال باندھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |