جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
بلبل جاں مری بسمل کبھی ایسی تو نہ تھی
وعدۂ وصل کیا کس نے دیا دم کس نے
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اے شہ حسن رقیب آپ کا قادر نکلا
فوج عشاق کی بیدل کبھی ایسی تو نہ تھی
مہرباں آئے کدھر آج کدھر نکلا چاند
رشک افلاک یہ محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
وہ مہ نو مگر آیا کسی مہتابی پر
چاندنی اے مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اپنے کاشانے سے کیوں غیر کے گھر ہو آئے
ماہ رو آپ کی منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
کس طرح وصل ہوا اس گل زیبا سے نسیمؔ
خوش نصیبی مجھے حاصل کبھی ایسی تو نہ تھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |