جنبش دل نہیں بے جا تو کدھر بھولا ہے
جنبش دل نہیں بے جا تو کدھر بھولا ہے
کوئی لڑکا اسے گہوارہ سمجھ جھولا ہے
خون تو نے جو بہایا ہے سیہ بختوں کا
تیرے کوچے میں عجب شام و شفق پھولا ہے
خوب رندوں نے اڑائے ہیں مزے دنیا کے
ہیز کو بکر ہے مردوں کی وہ مدخولا ہے
بہتر ہے عشق مجازی تجھے بیکاری سے
جب تلک عشق حقیقی ہو یہ مشغولا ہے
پائے ہمت تو مرا لنگ نہیں ہے حاتمؔ
گو مرے کام کے تئیں دست فلک لولا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |