جنس گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
جنس گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں
اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں ہر دم جماہتے ہیں
ناموس دوستی سے گردن بندھی ہے اپنی
جیتے ہیں جب تلک ہم تب تک نباہتے ہیں
سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری
جو تجھ کو دیکھتے ہیں مجھ کو سراہتے ہیں
وے دن گئے کہ راتیں نالوں سے کاٹتے تھے
بے ڈول میرؔ صاحب اب کچھ کراہتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |