جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی

جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی
by رشید لکھنوی

جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی
سر شوریدہ خود کرنے لگا تدبیر پتھر کی

یہ مشکل کس طرح حل ہو نہیں شمشیر پتھر کی
دل صیاد پتھر گردن نخچیر پتھر کی

بنا آئینہ چمکی کس قدر تقدیر پتھر کی
تمہارے روبرو آیا زہے توقیر پتھر کی

ہمارے جوش وحشت نے یہ ہم کو رنگ دکھلایا
نہ کچھ تقصیر لڑکوں کی نہ کچھ تقصیر پتھر کی

نشاں کچھ آپ بھی کر دیں ہوا دفن آپ کا مجنوں
پئے تاریخ رحلت کیجیے تدبیر پتھر کی

رگوں میں میری پیشانی کی جوش خوں ہوا پیدا
حکایت لکھ چکا جب کاتب تقدیر پتھر کی

جو تو سمجھے تو میرے تیرے دل کی ایک صورت ہے
یہ ہے تصویر مٹی کی وہ ہے تصویر پتھر کی

نہ جس میں لفظ و معنی ہوں کلام اس کو نہیں کہتے
چٹکنا پتھروں کا کب ہوئی تقریر پتھر کی

ترا سودا جہاں پر تھا رسائی ہو گئی واں تک
پڑا سر پر ہمارے لڑ گئی تقدیر پتھر کی

لگایا سنگ اپنے ہاتھ سے تو نے مرے سر پر
خوشا تقدیر میری اور زہے تقدیر پتھر کی

قسم لوگو ادب سے آنکھ اٹھا کے میں نے دیکھا ہو
تمہارے در میں لوہے کی ہے یا زنجیر پتھر کی

دل سخت اے رشیدؔ زار اپنا ہے گراں ہم کو
بجا ہے کس طرح بھاری نہ ہو تصویر پتھر کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse