جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
جنوں کے جوش میں انسان رسوا ہو ہی جاتا ہے
گریباں پھاڑنے سے فاش پردا ہو ہی جاتا ہے
محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے
طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے
جوانی وصل کی لذت پہ راغب کر ہی دیتی ہے
تمہیں اس بات کا غم کیوں ہے ایسا ہو ہی جاتا ہے
بگڑتے کیوں ہو آپس میں شکایت کر ہی لیتے ہیں
عدو کا تذکرہ دشمن کا چرچا ہو ہی جاتا ہے
تمہاری نرگس بیمار اچھا کر ہی دیتی ہے
جسے تم دیکھ لیتے ہو وہ اچھا ہو ہی جاتا ہے
اکیلا پا کے ان کو عرض مطلب کر ہی لیتا ہوں
نہ چاہوں تو بھی اظہار تمنا ہو ہی جاتا ہے
مرا دعوئ عشق اغیار باطل کر ہی دیتے ہیں
جسے جھوٹا بنا لیں یار جھوٹا ہو ہی جاتا ہے
بتان بے وفا مضطرؔ دل و دیں کر ہی لیتے ہیں
تمہیں پر کچھ نہیں موقوف ایسا ہو ہی جاتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |