جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر

جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر
by نظم طباطبائی
317749جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کرنظم طباطبائی

جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر
تو اٹھے ہیں دھواں ہو کر گرے ہیں بجلیاں ہو کر

کچھ آگے بڑھ چلے سامان راحت لا مکاں ہو کر
فلک پیچھے رہا جاتا ہے گرد کارواں ہو کر

کسی دن تو چلے اے آسماں باد مراد ایسی
کہ اتریں کشتئ مے پر گھٹائیں بادباں ہو کر

نہ جانے کس بیاباں مرگ نے مٹی نہیں پائی
بگولے جا رہے ہیں کارواں در کارواں ہو کر

وفور ضبط سے بیتابیٔ دل بڑھ نہیں سکتی
گلے تک آ کے رہ جاتے ہیں نالے ہچکیاں ہو کر

گلو گیر اب تو ایسا انقلاب رنگ عالم ہے
کہ نغمے نکلے منقار عنادل سے فغاں ہو کر

جو ہو کر ابر سے مایوس خود سینچے کبھی دہقاں
جلا دیں کھیت کو پانی کی لہریں بجلیاں ہو کر

جہاں میں واشد خاطر کے ساماں ہو گئے لاشے
جگہ راحت کی نا ممکن ہوئی ہے لا مکاں ہو کر

ہنسے کوئی نہ بجلی کے سوا اس دار ماتم میں
اگر رہ جائے سارا کھیت کشت زعفراں ہو کر

الم میں آشیاں کے اس قدر تنکے چنے میں نے
کہ آخر باعث تسکیں ہوے ہیں آشیاں ہو کر

گھٹائیں گھر کے کیا کیا حسرت فرہاد پر روئیں
چمن تک آ گئیں نہریں پہاڑوں سے رواں ہو کر

دل شیدا نے پایا عشق میں معراج کا رتبہ
یہاں اکثر بتوں کے ظلم ٹوٹے آسماں ہو کر

جو ڈرتے ڈرتے دل سے ایک حرف شوق نکلا تھا
وہ اس کے سامنے آیا زباں پر داستاں ہو کر

نکل آئے ہیں ہر اقرار میں انکار کے پہلو
بنا دیتی ہیں حیراں تیری باتیں مکر یاں ہو کر

نزاکت کا یہ عالم پھول بھی توڑے تو بل کھا کر
نہ جانے دل مرا کس طرح توڑا پہلواں ہو کر

تدرو و کبک پر ہنس کر اٹھے خود لڑکھڑاتے ہیں
سبک کرتے ہیں ان کو پائنچے بار گراں ہو کر

گلا گھونٹا ہے ضبط غم نے کچھ ایسا کہ مشکل ہے
کہ نکلے منہ سے آواز شکست دل فغاں ہو کر

پتہ اندیشۂ سالک نے پایا منزل دل کا
تو پلٹا لا مکاں سے آسماں در آسماں ہو کر

ہوئی پھر دیکھیے آ بستن شادی و غم دنیا
ابھی پیدا ہوئے تھے رنج و راحت تو اماں ہو کر

جو نکلی ہوگی کوئی آرزو تو یہ بھی نکلے گا
تمہارا تیر حسرت بن گیا دل میں نہاں ہو کر

اتر جائے گا تو او آفتاب حسن کوٹھے سے
گرے گا سایۂ دیوار ہم پر آسماں ہو کر


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.