جنگلوں میں جستجوئے قیس صحرائی کروں
جنگلوں میں جستجوئے قیس صحرائی کروں
کب تلک ڈھونڈوں کہاں تک جادہ پیمائی کروں
گر کوئی مانع نہ ہو واں سجدہ کرنے کا مجھے
آستان یار پر برسوں جبیں سائی کروں
بزم ہستی میں نہیں جز بیکسی اپنا رفیق
کس کی خاطر دوستو میں محفل آرائی کروں
غارت دل کا جو کرتا ہے ارادہ ترک چشم
غمزہ کہتا ہے میں تاراج شکیبائی کروں
لے گئے جب تیرے دیوانے کو عیسیٰ نے کہا
ہر گھڑی میں کیا علاج مرد سودائی کروں
آشنا کوئی نظر آتا نہیں یاں اے ہوسؔ
کس کو میں اپنا انیس کنج تنہائی کروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |