جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا
جن خاک کے ذروں پر وہ سایۂ محمل تھا
جو خاک کا ذرہ تھا وحشت کدۂ دل تھا
بیداد کی ہر تہ میں سو طرح سے شامل تھا
وہ جان کا دشمن جو کہنے کو مرا دل تھا
غم حسن مکمل تھا دل حیرت کامل تھا
تصویر کا آئینہ تصویر کے قابل تھا
ہم جی سے گزر جانا آسان سمجھتے تھے
دیکھا تو محبت میں یہ کام بھی مشکل تھا
آئینہ و دل دونوں کہنے ہی کی باتیں تھیں
تیری ہی تجلی تھی اور تو ہی مقابل تھا
ہر باطل و ہر ناحق اک راز حقیقت ہے
جس شکل میں حق آیا وابستۂ باطل تھا
ہاں آپ کسی کو یوں برباد نہیں کرتے
یہ فانیؔٔ ناکارا سچ ہے اسی قابل تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |