جوانی کی حالت گزر جائے گی

جوانی کی حالت گزر جائے گی (1893)
by مرزا مسیتابیگ منتہی
317540جوانی کی حالت گزر جائے گی1893مرزا مسیتابیگ منتہی

جوانی کی حالت گزر جائے گی
چڑھی ہے جو سر پر اتر جائے گی

جدھر کو مری چشم تر جائے گی
ادھر کام دریا کا کر جائے گی

زمانے کی ایذا کا شکوہ نہ کر
گزرتے گزرتے گزر جائے گی

کھلے گا تجھے عشق بازی کا حال
یہ حرص ہوا جبکہ مر جائے گی

مرے جسم خاکی سے ہو کے جدا
یہ روح رواں پھر کدھر جائے گی

مرے نغموں سے عندلیب چمن
کہاں اڑ کے تو مشت پر جائے گی

توجہ تری او بت بے وفا
مرا کام آخر کو کر جائے گی

بہار چمن جبکہ ہوگی خزاں
مری وحشت دل کدھر جائے گی

اگر جذبۂ دل پہ قابو رہا
شب وصل کی پھر ٹھہر جائے گی

کھنچی ہے جو تیغ محبت دلا
یہی ایک دن تیرے سر جائے گی

چڑھی ہوگی کچے گھڑے کی جسے
اترتے اترتے اتر جائے گی

قمار محبت میں گر آہ کی
یہ جیتی ہوئی بازی ہر جائے گی

مری مرگ ایسی ہے اے منتہیؔ
کہ جس کی عدم تک خبر جائے گی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D9%88%D8%A7%D9%86%DB%8C_%DA%A9%DB%8C_%D8%AD%D8%A7%D9%84%D8%AA_%DA%AF%D8%B2%D8%B1_%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%92_%DA%AF%DB%8C