جوش عشق
by میر تقی میر
314932جوش عشقمیر تقی میر

ضبط کروں میں کب تک آہ اب
چل اے خامے بسم اللہ اب
کر ٹک دل کا راز نہانی
ثبت جریدہ میری زبانی
یعنی میرؔ اک خستۂ غم تھا
سر تا پا اندوہ و الم تھا
آنکھ لڑی اس کی اک جاگہ
بے خود ہوگئی جان آگہ
صبر نے چاہی دل سے رخصت
تاب نے ڈھونڈھی اک دم فرصت
تاب و توان و شکیب و تحمل
رخصت اس سے ہوگئے بالکل
سینہ فگاری سامنے آئی
بے تابی نے طاقت پائی
کرتے آئے داغ سیاہی
کام جگر کا کرنے تباہی
خون جگر ہو بہنے لاگا
پلکوں ہی پر رہنے لاگا
خواب و خورش کا نام نہ آیا
ایک گھڑی آرام نہ پایا
چاک جگر سے محبت ٹپکی
آنسو کی جاگہ حسرت ٹپکی
سوز سے چھاتی تابہ گویا
اور پلک خونابہ گویا
آہ سے اس کی مشکل جینا
درد فقط تھا سارا سینہ
دل میں تمنا داغ جگر میں
شیون لب پر یاس نظر میں
نالے شب کو اس کے سن کر
مر گئے کتنے سر کو دھن کر
آہ و فغاں ہے اس کے لب پر
روز ہے اب تک آفت سب پر
روے و جبیں پہ خراش ناخن
داغوں سے خوں کے قیامت گلبن
زخم سینہ دل تک پہنچا
کوئی نہ اس گھائل تک پہنچا
آبلہ دل کا جب کوئی پھوٹا
فوارہ لوہو کا چھوٹا
غم نے تو دل میں کیا ہے چھوڑا
بر میں تھا اک پکا پھوڑا
سو نہ گیا یک دم وہ بے کل
بخت نہ جاگے اس کے اک پل
کام رہا ناکامی ہی سے
تسکیں بے آرامی ہی سے
رخساروں پر خون رواں ہو
دل میں ہو سو منھ پہ عیاں ہو
دشنۂ غم سے سینہ کوچا
ناخن سے منھ سارا نوچا
دل آماجگہ غمناکی
اور نفس اک تیر خاکی
نے طاقت نے یارا اس کو
ضعف دلی نے مارا اس کو
نالۂ دل میں حزینی اس کے
خاطر میں غمگینی اس کے
رنگ اڑے چہرے کا ہر دم
تھا گویا گل آخر موسم
دست بہ دل ہر آن رہے وہ
بے طاقت بے جان رہے وہ
رنگ شکستہ بس کہ فسردہ
کہنے کو زندہ لیکن مردہ
خوں باری سے چہرہ گل گوں
حلق بسمل دیدۂ پرخوں
جدول جاری چاک گریباں
گوشۂ دامن وقف مژگاں
دیدۂ تر کے دریا قائل
ساحل خشک لبی کے سائل
ہر دم ہو ہر سمت کو جاری
خوں باری سے سیل بہاری
تشنہ لبی اک منھ پر پیدا
لب چش جس کا ہووے نہ دریا
خاک بسر آشفتہ سری سے
شور قیامت نوحہ گری سے
سر تا پا آشفتہ دماغی
داغ جنوں دے جس کو چراغی
غم سے گرچہ دم بھی کہیں تھا
جامے میں اک تار نہیں تھا
وادی پر جب اپنے آوے
صحرا صحرا خاک اڑاوے
کلفت دل جب خاک فشاں ہو
اشک کی جاگہ ریگ رواں ہو
گل ان نے ازبسکہ کھائے
پھولوں کی چھڑیاں ہاتھ بنائے
دل کے غبار نے راہ جو پائی
شہر میں گویا آندھی آئی
سر پر اس کے سنگ ہمیشہ
جی پر عرصہ تنگ ہمیشہ
آہ سرد کرے وہ عریاں
بید سا کانپے موے پریشاں
گرد کی تہ اس کا پیراہن
دامن صحرا جس کا دامن
بار دامن تار گریباں
دامن قرب و جوار گریباں
پامالی میں مثل جادہ
نقش قدم سا خاک افتادہ
دشت تلک گئی آبلہ پائی
دور کھنچی اس کی رسوائی
اس کے جو پامال ہوئے سب
خار بیاباں لال ہوئے سب
جن نے دیکھا اس کو یک دم
ان نے کہا یہ بھول کے سب غم
چندے یہ ناشاد رہے گا
پر مدت تک یاد رہے گا
جلنا اس سے کرے نہ کنارہ
جیسے چراغ وقف بچارا
لوہو ٹپکے آہ سحر سے
نالہ گتھواں لخت جگر سے
رکھتا سدا تھا وہ دیوانہ
ورد زباں یہ شعر دانا
صارَ فوادی شقاً شقاً
حقاً حقاً حقاً حقاً
ہوش و خرد ناشاد گئے سب
دین و دل برباد گئے سب
درد دل سے کچھ نہ کہے وہ
ہر اک کا منھ دیکھ رہے وہ
حسرت اس کی ایک اعجوبہ
آب دہن کی موج میں ڈوبا
غیر سے بولے نہ یاروں ہی سے
بات کہے تو اشاروں ہی سے
سمجھو تو کوئی داد کو پہنچو
عاشق کی فریاد کو پہنچو
ورنہ رہے من مار کر اپنا
سر دے مارے ہار کر اپنا
کیوں کر غم سے ہو آزادی
جان کے ساتھ اس کی ناشادی
کوئی نہ اس پر سایہ گستر
اپنا ہاتھ اپنے ہی سر پر
نے کعبے نے دیر کے قابل
مذہب اس کا سیر کے قابل
کیسا کہیے کیسا کچھ تھا
القصہ وہ ایسا کچھ تھا

در صفت دلبرے کہ با او علاقۂ دل بود

وہ کیسا تھا جس پر عاشق
جی سے تھا وہ عاشق صادق
دیدۂ گل میں جاگہ اس کی
نکہت گل گرد رہ اس کی
چشم برہ سارا چمن اس کا
نقش قدم تھا یاسمن اس کا
آگے اس کے کبھو نہ آیا
یہ رو گل نے کہاں سے پایا
گل آشفتہ اس کے رو کا
سنبل اک زنجیری مو کا
جب وہ چہرہ تابندہ ہو
ماہ دو ہفتہ شرمندہ ہو
زلف اس چہرے پر تابندہ
کاکل صبح سے خوش آئندہ
دیکھ اس گل کی نورافشانی
شمع مجلس پانی پانی
ہو ہر چند یہ بدر کامل
اس چہرے کے ہو نہ مقابل
حوصلہ کتنا اس بے تہ کا
منھ دیکھو آئینہ مہ کا
رکھتی تھی دعویٰ خوش چشمی پر
لیکن اس کی چشم نظر کر
بہتوں کی جب جانیں گھل گئیں
نرگس کی بھی آنکھیں کھل گئیں
دور چشم ہے اس کا جب سے
فتنہ اک سوتا نہیں تب سے
رخ لب سے جاں بخش عالم
بلکہ سراپا جان مجسم
عیسیٰ کو گر لب دکھلاوے
ہرگز اس کو بات نہ آوے
کوئی مرو انداز حیا پر
چشم اس کی تھی پشت پا پر
کچھ مت پوچھو تنگی دہن کی
مشکل تھی واں جاے سخن کی
کرکے شمیم زلف گذارہ
پھیلاوے ہے عنبر سارا
خط آیا ہے گرد اس لب کے
شاید شکر تنگ ہو اب کے
دونوں لب اس کے لعل بدخشاں
دست حنائی پنجۂ مرجاں
تھا دیکھا یک رہ پردے میں
برق خرمن مہ پردے میں
جس دم برقع منھ سے اٹھاتا
خورشید اس دم ڈوبا جاتا
پار دلوں کے خدنگ مژہ کا
کاوش کم کم تنگ مژہ کا
بھوں کی کشش کا دوانہ عالم
تیر نگہ کا نشانہ عالم
تیغ و تبر تھی ابرو اس کی
آتش تھی سرکش جو اس کی
ناز کی مے سے مست رہے وہ
اکثر دست بدست رہے وہ
زلفوں کے سب تار پریشاں
سر اوپر دستار پریشاں
سائے سے اس کے سرو بنایا
خاک رہ سے تدرو بنایا
ہووے خراماں جب وہ کافر
کبک کی ہووے جان مسافر
چشم کرشمہ جان تغافل
شایاں اس کے شان تغافل
کیا جانے وہ حال کسو کا
پتھر دل اس آئینہ رو کا
پاتے ہی ابرو کا اشارہ
غمزے نے اک خنجر مارا
جب وہ خرام ناز کرے ہے
جی کو جور نیاز کرے ہے
رخصت دے گر عشوہ گری کو
ایک ہی جلوہ بس ہے پری کو
ہنسنے میں وہ صفاے دنداں
برق خرمن عالم امکاں
رشک سحر کو صافی تن پر
خون صراحی اس گردن پر
آہ صفائی اس سینے کی
غیرت افزا آئینے کی
شکل چیں میں یہ ناز کہاں ہے
صورت ہے انداز کہاں ہے
ایسا خوب جہاں میں کہیں ہے
رحم ہے اس پر اب جو نہیں ہے
جب وہ شکل نظر آتی تھی
کلفت دل کی نکل جاتی تھی
رنگیں اس کے اس کف پا سے
جائیں نکویاں اپنی جا سے
چشم کرو انصاف کی گر وا
یوسف و شیریں لیلیٰ عذرا
کون ہوا اس محبوبی سے
خوبی تو تھی پر اس خوبی سے
بار نزاکت کیونکے اٹھاوے
شاخ گل سا لہکا جاوے
ہے گی رگ گل یا رگ جاں ہے
پر نازک اسرار میاں ہے
صید ملک قربانی اس کا
یوسف اک زندانی اس کا
اور جو خوباں پاویں اس کو
یک دیگر دکھلاویں اس کو
جاویں اس پر جان سبھوں کے
تیغ رہے درمیان سبھوں کے
تھانبا جائے کس کے کنے وہ
غصے ہو تو پھر نہ منے وہ
کیا کوئی شوخی اس کی بتاوے
کچھ ٹھہرے تو کہنے میں آوے
کیا ہے اس کے آب و گل میں
آرزو اس کی سب کے دل میں
سب کو میل اس بت کی ادا کا
بندہ کون رہا ہے خدا کا
دیکھے نہ عاشق زار کو اپنے
پوچھے نہ بیمار کو اپنے
عاشق ظلم و جور و جفا کا
دشمن جانی اہل وفا کا
کوچہ رشک فزاے کعبہ
واں پہنچے نہ دعاے کعبہ
ہر شب اک فریاد و تظلم
اٹھ گئی واں سے رسم ترحم
آہیں جن کی درود و وظائف
سو دل خستے وھاں کے طائف

رخصت شدہ رفتن یار وبے تاب شدن عاشق بے قرار

کر اے خامہ وہ تحریر اب
آوے زباں پر جو تقریر اب
یعنی میرؔ اس خستۂ غم کا
سر تا پا اندوہ و الم کا
یار سفر کا مائل ہوکر
حب وطن کو جی سے دھوکر
رخصت کو اس پاس بھی آیا
جلتے کے تیں اور جلایا
وقت وداع قیامت گذرا
سر سے آب حسرت گذرا
اک دم بے خود ہوکے رہا وہ
اس سے آگے آپ گیا وہ
آنکھیں لگیں ناسور ہو بہنے
دیکھ کے اس کو لگا یہ کہنے
ظلم ہے لوہو پیتے رہیے
جان گئے پر جیتے رہیے
عمر عزیز چلی یوں جاوے
اور فلک آنکھوں سے دکھاوے
آخر کرکے خدا کے حوالہ
آئینے پر پانی ڈالا
تاکہ وہ منھ دکھلاوے شتابی
راہ دور سے آوے شتابی
یار گئے پر میرؔ جو اب ہے
جان سے خالی اک قالب ہے
راقم غم ہے وہ دل تفتہ
نامہ بر اس کا رنگ رفتہ
غم سے فرصت اس کو کہاں ہے
قاصد اشک ہمیشہ رواں ہے
خط لکھتا ہے اس مضموں سے
تر ہو بال کبوتر خوں سے
خط سے ایک آتش سر ہووے
جس سے کباب کبوتر ہووے
جب درد دل ان نے لکھا ہے
شعلہ خط میں لپیٹ دیا ہے
سوز کے آوے جب وہ بیاں پر
شعلہ اک جوں شمع زباں پر
جب کرے خون جگر سے انشا
یار کا اپنے شوق کف پا
ہو انگشت بریدہ خامہ
اور حنائی کاغذ نامہ
راہ یہ بیٹھا وہ سرگشتہ
دیکھے راہ عمر گذشتہ
آگے تھا کب ہجراں دیدہ
آہ وہ تازہ ظلم رسیدہ
کیا کیا بے طاقت ہوتا ہے
ہر دم جی رخصت ہوتا ہے
حال عجب ہے رنجوری سے
مرنے قریب ہے وہ دوری سے
جب وہ درد دل کو جتاوے
باتوں پہ اس کے رونا آوے
دستہ دستہ داغ بسر ہے
پرکالہ پرکالہ جگر ہے
اشک نہیں آنکھوں سے ٹپکتا
ہے یہ گرہ اک دل کی تمنا
داغ دروں ہے گلشن گلشن
گل یہ چنے وہ دامن دامن
چھوڑے نہ راہ و رسم وفا کو
دے پیغام ہمیشہ صبا کو
پاس اس کے گر تیرا ہو جانا
بھولے ہوؤں کو یاد دلانا
زیر لب اس کے بات یہی ہے
شام و سحر دن رات یہی ہے
کھینچیں گے کب تک یہ سختی ہم
پھر بھی ملیں گے جیتے جی ہم
بس اے خامہ رکھ لے زباں کو
تاب نہیں ہے اہل جہاں کو
قصۂ غم کو نہایت کب ہے
اس سے خموشی اب انسب ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.