جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی

جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی
by رشید لکھنوی

جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی
ہیں جہاں سو آبلے کچھ خار صحرا بھی سہی

دل میں سو باتیں ہیں اک تیری تمنا بھی سہی
سر پہ ہیں لاکھ آفتیں اک داغ سودا بھی سہی

منہ پہ آنچل لیجئے مجھ سے جو آتا ہے حجاب
گر یہی منظور ہے تھوڑا سا پردہ بھی سہی

دل میں وقت ذبح ہے حسرت کہ تم کو دیکھ لیں
مرتے مرتے خیر جینے کی تمنا بھی سہی

ہم عدم سے یاں نہ آتے تھے تو سمجھاتا تھا دل
اک نظر گلزار ہستی کا تماشا بھی سہی

میرا حال سخت جانی سن کے فرمانے لگے
تیغ کے ساتھ ایک ابرو کا اشارا بھی سہی

گرم آہیں کر چکا اب کھینچتا ہوں سرد آہ
لیجئے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا بھی سہی

کیوں بگڑیے حسن و رفعت میں کسے انکار ہے
آپ یوسف بھی سہی رشک مسیحا بھی سہی

اپنے دل کو گر پسند آئے تو جانیں خوب ہے
ہم نے مانا یار تم سے کوئی اچھا بھی سہی

تیرہ بختوں کے مزاروں پر نہ ہوگی روشنی
آزما دیکھو چراغ دست موسیٰ بھی سہی

چارہ سازوں کی خوشی ہے زخم پر ہوں یا نہ ہوں
مرہم زنگار کا ایک آدھ پھاہا بھی سہی

تیرے سر سے پاؤں تک برسوں میں جاتی ہے نظر
ہر جگہ پر کہتی ہے یاں کا تماشا بھی سہی

دل جگر میں کچھ نہیں سینے میں ہیں پر آس ہے
بزم کی زینت کو خالی جام و مینا بھی سہی

یہ تو ظاہر ہو گیا تم مرتبے میں ہو بلند
اب مسیحا سے مسیحائی کا دعویٰ بھی سہی

اس کے در پر جا کے کچھ حاصل نہ ہوگا اے رشیدؔ
کوئی بولا بھی سہی تم نے پکارا بھی سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse