جوش گل
وہ موسم ہے کہ خوبان چمن بنتے سنورتے ہیں
یہ عالم ہے کہ جیسے رنگ تصویروں میں بھرتے ہیں
ہے خوابیدہ جو سبزہ آئنہ خانے میں شبنم کے
نفس دزدیدہ باد صبح کے جھونکے گزرتے ہیں
پر طوطی پہ ہوتا ہے دم طاؤس کا دھوکا
ہوا سے اڑ کے برگ گل جو سبزہ پر بکھرتے ہیں
ملا ہے سبزہ نوخیز کو کیا رنگ زنگاری
ہوا لگنے سے جس کی زخم دل لالہ کے بھرتے ہیں
شگوفہ ریز ہو کر ڈالیاں مدہوش کرتی ہیں
کہ میکش جانتے ہیں طاق سے شیشے اترتے ہیں
نزاکت سے ادا سے جھوم کر کہتی ہے شاخ گل
یونہی اک جام پی کر رنگ مستوں کے نکھرتے ہیں
بشاشت کہہ رہی ہے چہرۂ گل کی ادھر دیکھو
یوں ہی محفل میں ہنس دیتے ہیں پیمانے جو بھرتے ہیں
چمن کی بڑھ کے شاخیں ابر سے کرتی ہیں گل بازی
گلوں کی آئنہ داری پر طاؤس کرتے ہیں
گماں ہوتا ہے کی لشکر کشی باد بہاری نے
زرہ پوش آب ہو جاتا ہے جب بادل گزرتے ہیں
دم صبح بہاری ہے رخ خور پر نقاب افگن
کسی آئینہ پر تار نفس جیسے بکھرتے ہیں
وہیں جا کر تھمے گا کاروان لالہ و گل بھی
نسیم صبح کے جھونکے جہاں جا کر ٹھہرتے ہیں
نہالان چمن کر لیں گے قبضہ سارے عالم پر
وہاں سے پھر نہیں ہٹتے جہاں پہ پاؤں دھرتے ہیں
زمیں پر جال پھیلایا ہے کوسوں زلف سنبل نے
عنادل ان دنوں آتے ہوئے گلشن میں ڈرتے ہیں
جواب جشن جم ہے گرمئ ہنامۂ گلشن
کہ لے کر کشتئ مے تخت پریوں کے اترتے ہیں
عنادل مل چکے ہیں خاک میں جو کیا خبر ان کو
کہ شاخیں جھومتی ہیں پھول تربت پر بکھرتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |