جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم
جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم
برسات کے موسم میں بھی پھولے نہ پھلے ہم
محروم چمن مرغ قفس بند ازل ہیں
صیاد کے پنجرے میں ہیں بچپن سے پلے ہم
جب غیر سے ہوتا ہے وہ سفاک بغل گیر
تیغ صفہانی کو لگاتے ہیں گلے ہم
چکی کی طرح چرخ نے پیسا تو ہمیں کو
دانا ہیں زمانے کے گئے اس سے ولی ہم
یہ شوق شہادت ہے جو تیغ اس نے علم کی
گردن کو جھکائے ہوئے صیاد چلے ہم
وہ مست ہیں جب در پہ اڑے پیر مغاں کے
بے مے کے پیے پھر نہیں ٹالے سے ٹلے ہم
ابرو کی ہوا بھی نہ لگی بو الہوسوں کو
اس تیغ کی روز آنچ میں بے آب جلے ہم
کچھ غم نہیں بت سمجھیں بد و نیک جو چاہیں
اللہ کے بندے ہیں برے ہیں کہ بھلے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |