جو بعد مرگ بھی دل کو رہی کنار میں جا
جو بعد مرگ بھی دل کو رہی کنار میں جا
تو سو چکا میں فراغت سے بس مزار میں جا
تمام درد ہوں معلوم کچھ نہیں کہ کہاں
ترے خدنگ نے کی ہے تن نزار میں جا
یہی تو رزق ہے بعد فنا مرا ظالم
سمجھ کے برق شرربار خارزار میں جا
قدم سمجھ کے تو رکھ تشنگان حسرت سے
تہی نہیں ہے ٹک الفت کی رہ گزار میں جا
اٹھی جو کلفت دل کم ہو میری کلفت میں
غبار جیسے کہ مل جائے ہے غبار میں جا
نہ ہو کہیں کہ دو صد خون خفتہ ہوں بیدار
صبا جو جائے تو آہستہ کوئے یار میں جا
خدنگ غمزہ تو خار شگاف ہے اس کا
چھپائے جی کو کوئی کون سے حصار میں جا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |