جو بنے آئنہ وہ تیرا تماشہ دیکھے
جو بنے آئنہ وہ تیرا تماشہ دیکھے
اپنی صورت میں ترے حسن کا جلوہ دیکھے
ہائے کس طرح تجھے عاشق شیدا دیکھے
تیرا سایہ بھی نہیں ہے کہ جو سایہ دیکھے
تیری شانیں ہیں ہزاروں ترے جلوے لاکھوں
دو ہی آنکھیں ہوں ملی جس کو وہ کیا کیا دیکھے
قیس کو ہوش نہیں لب پہ انا لیلیٰ ہے
اپنے دیوانے کو آ کر ذرا لیلیٰ دیکھے
دیکھنے والے ترے دیکھتے ہیں یوں تجھ کو
جیسے دریا کی طرف پیاس کا مارا دیکھے
کیا سمجھ رکھا ہے اللہ کو تو نے اکبرؔ
آنکھیں کھولے ہوئے بیٹھا ہے کہ جلوہ دیکھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |