جو بھی منجملۂ آشفتہ سرا ہوتا ہے

جو بھی منجملۂ آشفتہ سرا ہوتا ہے
by عابد علی عابد

جو بھی منجملۂ آشفتہ سرا ہوتا ہے
زینت محفل صاحب نظراں ہوتا ہے

یہی دل جس کو شکایت ہے گراں جانی کی
یہی دل کار گہ شیشہ گراں ہوتا ہے

شاخ گلزار کے سائے میں کہاں دم لیجے
کہ یہاں خون کا سیل گزراں ہوتا ہے

کس کو دکھلائیے اپنوں کی ملامت کا سماں
کہ یہ اسلوب حدیث دگراں ہوتا ہے

کس کو بتلائیے وہ رابطۂ ناز و نیاز
ان کی محفل میں جو اے دیدہ وراں ہوتا ہے

کبھی کرتی ہے تجلی نگرانی دل کی
کبھی دل سوئے تجلی نگراں ہوتا ہے

مجھ پہ ہوتے ہیں غم دل کے صحیفے نازل
جن میں افسانۂ عالی گہراں ہوتا ہے

دل بھی دیتا ہے مجھے مشورۂ ترک وفا
کچھ تقاضائے جہان گزراں ہوتا ہے

میں تو ہوں شیفتۂ رنگ تغزل عابدؔ
کہ یہی شاہد خونیں جگراں ہوتا ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse